مسجد رحمانی اور اخیر عشرہ کا اعتکاف (حصہ دوم)

مسجد رحمانی اور اخیر عشرہ کا اعتکاف (حصہ دوم) 

آج یونیورسٹی نے 27  رمضان بمطابق 28 مارچ 2025  کو رمضان المبارک کے آخری جمعہ “جمعہ الوداع” کی چھٹی کا اعلان کیا جو میرے لیے ایک نعمت مترقبہ کے طور پر یہ چھٹی تھی کیونکہ گورنر کی طرف سے جو چھٹی الاٹ تھی اس میں یہ شامل نہیں تھی. میں نے سوچا کہ ستائیس ویں کی شب مسجد رحمانی میں گزارا جائے کیونکہ آج یہاں تراویح میں قرآن مجید بھی مکمل ہونے والا ہے. یہ سوچ کر بھاگلپور سے مونگیر کے لیے رخت سفر طے کیا اور کالج کے بعد افطار تک مونگیر پہنچ گیا. افطار کے بعد ایک جوش اور پرانی یادوں کو دل میں سجائے ہوئے خانقاہ رحمانی کی طرف بڑھا. دروازے کے اندر داخل ہونے سے پہلے ہی لوگوں کا چہل پہل دکھنے لگا. اندر داخل ہوتے ہی بڑی تعداد میں گاڑیاں لگی ہوئی دکھیں. چھوٹے بچے ادھر ادھر پھر رہے ہیں اور مسجد کے داہنے جانب سے عورتوں کا ہجوم بڑھتا جارہا ہے. مسجد کے اندر داخل ہوا تو والد محترم صحن مسجد میں بیٹھے تسبیح پڑھ رہے تھے. علیک سلیک ہوا پھر میں مسجد میں خالی جگہ دیکھ کر اپنی جگہ لے لی کیوں کہ مصلیوں سے مسجد بھری تھی اگر اور دیر کرتا تو شاید مسجد سے باہر جگہ ملتی اس لیے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ممبر سے تھوڑے پیچھے بیٹھ گیا. 8:45 ہوچکا تھا. ابھی بھی نماز شروع ہونے میں 15 منٹ باقی تھا. 

 

مجلس میں کشادگی 

تبھی مولانا صالحین ندوی جگہ کی تلاش میں نگاہ جمائے ہوئے تھے میں نے قرآن مجید کی آیت کریمہ “یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡۤا  اِذَا  قِیۡلَ  لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ  لَکُمۡ ۚ”( ترجمہ : اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی  پیدا  کرو تو تم  جگہ  کشادہ کردو اللہ تمہیں کشادگی دے گا) پر عمل کرتے ہوئےاپنے بغل میں ان کے لیے جگہ کی گنجائش نکالی. مولانا صالحین دیکھنے میں تو ہلکے پھلکے لگتے ہیں لیکن بہت بڑی بڑی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں. آپ رحمانی فاؤنڈیشن کے سیکریٹری اور جامعہ رحمانی کے استاد ہیں. ملن سار اور کافی محنتی ہیں. کام کو مکمل کرنے کا ایک لگن رکھتے ہیں. رحمانی بی ایڈ کالج ہو یا رحمانی اکسیلینس اسکول ہو، رحمانی کمپیوٹر سینٹر ہو یا رحمانی ہیلتھ کیئر ہو، رحمانی سلائی سینٹر ہو یا ووکیشنل کورس ہو سبھوں پر حضرت کے حکم سے یکساں نظر بنائے ہوئے ہیں اور حضرت کی سرپرستی میں روز بروز رحمانی فاؤنڈیشن کو نیا پہنچان دلا رہے ہیں.

 

امیر شریعت ثامن کا اعتکاف 

پوری مسجد اندر باہر اور خانقاہ رحمانی کا پورا ایریا نمازیوں کے ہجوم سے بھرا ہے کیونکہ آج ستائیس ویں رمضان کی شب ہے اور بہت زمانے سے مسجد رحمانی کے تراویح میں قرآن مجید مکمل ہوتا آرہا ہے. میری نگاہ مسجد میں لگے اسی کالے پردے پر پڑی. اندازہ ہوگیا کہ موجودہ امیر شریعت ثامن حضرت مولا احمد ولی فیصل رحمانی اعتکاف میں تشریف لا چکے ہیں. معمول کے مطابق ان کو اکیسویں شب میں اعتکاف میں آجانا چاہیے لیکن ملک میں بہت ہی حساس مسئلہ “وقف بل” چھڑا ہوا ہونے کی وجہ سے نہیں آسکے. ایک دن قبل ہی 26 مارچ کو پٹنہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے اور امارت شرعیہ بہار اڑیشہ جھاڑ کھنڈ و بنگال کے علاوہ تمام ملی تنظیموں نے مشترکہ طور پر وقف بل کی مخالفت میں حکومت ہند کے خلاف احتجاج کیا جس میں پورے ملک سے سیاسی رہنماؤں نے بنفس نفیس شرکت کرکے خطاب کیا. وقف بل منظور ہو جانے کی صورت میں کیا نقصان ہوگا اس کو واضح انداز میں بتایا. حضرت نے اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اعتکاف پر ترجیح دی کیوں کہ اگر وقف بل یعنی کالا قانون پاس ہوگیا تو وقف کی جائداد جس میں مسجدبھی شامل ہے، باقی ہی نہیں رہیں گی تو لوگ اعتکاف کہاں کریں گے. اس لیے اعتکاف سے زیادہ ضروری اس نازک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے.  9 بج چکا تھا نماز کا وقت ہو چلا اس لیے امام صاحب یعنی حافظ اکرام صاحب نے عشا کی نماز شروع کی اور

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَسۡمَعُوۡا لِہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ وَ الۡغَوۡا فِیۡہِ  لَعَلَّکُمۡ تَغۡلِبُوۡنَ ﴿۲۶﴾ سے نُزُلًا  مِّنۡ غَفُوۡرٍ  رَّحِیۡمٍ ﴿۳۲﴾ تک پڑھا. 

(ترجمہ :-اور کافروں نے کہا اس  قرآن  کو سنو ہی مت ( اس کے پڑھے جانے کے  وقت  ) اور بے ہودہ گوئی کرو کیا عجب کہ تم  غالب  آجاؤ ۔…. ۔ ( واقعی )  جن  لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اسی پر قائم رہے ان کے  پاس  فرشتے ( یہ کہتے ہوئے ) آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور  غم  نہ کرو ( بلکہ ) اس  جنت  کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو ۔تمہاری دنیاوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور  آخرت  میں بھی رہیں گے جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لئے (  جنت  میں موجود ) ہے ۔) گویا اس رکوع میں کافروں اور مومین کی صفت بتائی ہے. اللہ رب العزت کی طرف سے مہمان نوازی ہوگی. کیسا خوشنما منظر ہوگا اور کیسی ضیافت ہوگی اس کا ایک مومن ہی تصور کرسکتا ہے. 

 

تراویح کی تلاوت 

عشا نماز کے بعد تراویح شروع ہوئی اور قرآن مجید کی سورہ بلد سے سورہ ناس تک تلاوت ہوئی. اس دوران 25 سورتیں ہیں جن میں صرف دو سورتیں مدنی باقی سب مکی ہیں. امام صاحب تلاوت کرتے جارہے تھے اور میری حالت اس آیت کی مانند تھی. وَ  اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ  اُنۡزِلَ  اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ  الدَّمۡعِ مِمَّا عَرَفُوۡا مِنَ الۡحَقِّ…. ﴿۸۳﴾

(ترجمہ : اور جب وہ رسول کی طرف نازل کردہ ( کلام ) کو سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں اس سبب سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ، وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔) 

  میرا دل سورتوں کی تلاوت سے پسیجتا جارہا تھا اور حضور کے مکی دور کی یاد تازہ ہوتی جارہی تھی کہ ہمارے حضور اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے کتنا مشکل ترین وقت گزارا اس کے باوجود نہ صرف ایمان کو بچائے رکھا بلکہ اس پر اور مضبوطی سے عمل پیرا ہوکر دکھایا. یہ بات ہر قرآن پڑھنے والوں کو معلوم ہونی چاہیے کہ پورے قرآن میں دو طرح کی سورتیں ہیں یا تو مکی یا پھر مدنی. مکی سورتوں میں زیادہ تر وحدانیت، رسالت اور قیامت کے مسائل ہیں اور اس کے ذریعے ایمان کو مستحکم کرنے پر زور دیا گیا ہے. جبکہ مدنی سورتوں میں ایمان کے ساتھ ساتھ زندگی کے مسائل اور طرز معاشرت وغیرہ کے زیادہ مسائل ہیں. امام صاحب نے سورہ اخلاص کی تلاوت مع بسم اللہ پڑھی کیوں کہ پورے قرآن میں کم از کم ایک بار بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے شاید اسی وجہ سے انہوں نے اس سورہ کی تلاوت میں بسم اللہ پڑھ کر اس ذمہ داری کو ادا کیا. بیسویں رکعت میں انہوں نے الم سے قرآن مجید شروع کر دیا جو اس طرف اشارہ تھا کہ قرآن مجید ختم نہیں ہوا ہے. یعنی ختم کرکے بند کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کی تلاوت چلتے رہنی چاہیے اگر ایک ختم ہوجائے تو دوسرا فورا شروع کردیا جائے. اس کے بعد امام صاحب نے مختصر دعا کی اور اعلان کیا کہ حضرت مولانا فیصل رحمانی کا خطاب ہوگا اس لیے جب تک آپ حضرات درود شریف اور استغفار کا ورد کریں. تبھی حافظ شاہد رحمانی نے مائک لے کر آہستہ آہستہ استغفار کا ورد کرانا شروع کردیا پھر مولانا محمد نجم الدین نے درود شریف کا ورد کرایا تاآنکہ حضرت امیر شریعت تشریف لے آئیں. حضرت نے اللہ کی وحدانیت رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم  پر مدلل اور تفصیلی گفتگو کی اور فرمایا کہ ہم نے اس ماہ میں جنت کمایا یا جہنم اس کا محاسبہ ہمیں کرنا چاہیے. پھر حضرت کی رقت آمیز دعا پر مجلس کا اختتام ہوا.

 رحمانی 30 کے سی ای او سے ملاقات

دعا کے بعد مسجد رحمانی کے مصنوعی حجرہ میں حضرت سے بالمشافہ ملاقات ہوئی. آپ کے ساتھ آپ کے چھوٹے بھائی جناب انجینئر حامد ولی فہد رحمانی جن کے بارے میں ابا جان حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب نے بھرے مجمع میں اعلان کیا تھا کہ میرے چھوٹے لڑکے فہد اپنے بھائی کا معاون و مددگار ہوں گے، میں نے فہد انکل کو ہمیشہ ان کا نہ صرف معین و مددگار پایا بلکہ دایاں بازو بن کر ان کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھا ہے. انجینئر فہد رحمانی وہ ہیں جنہوں نے خود روپوش ہوکر رحمانی 30 کو پورے ملک میں پہچان دلائی. آج رحمانی 30 کی وجہ سے ہمارے مسلم بچے ان تمام امتحانات کو مسخور کر چکے ہیں جو کبھی خواب ہوا کرتے تھے. اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بانی مولانا ولی رحمانی ہیں لیکن اس کی کامیابی کا سہرا فہد رحمانی کو جاتا ہے. انہوں نے ایک قلیل عرصہ میں وہ کردکھایا جسے کرنے کے لیے برسہا برس لگ جاتے ہیں. اور اس پر عاجزی کہ سارا سہرا اور کریڈٹ اپنے والد اور بڑے بھائی کو دیتے ہیں. ایسے مخلص کہاں ملتے ہیں وہ بھی اس دور میں جب ہر انسان اپنی انا کو سامنے رکھتا ہے اور نام و نمود کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے. لیکن اس بندہ خدا کو کبھی نام و نمود کے لیے کرتے میں نے نہیں پایا ہمیشہ بے لوث خدمت. اللہ اکبر. اللہ تعالیٰ ان کے خدمات کو قبول فرمائے اور اپنے شایان شایان ان کو بدلہ عطا فرمائے. 

امارت شرعیہ اور امیر شریعت کے کیا معنی؟ 

 اس کے بعد معروف و مشہور نوجوان ولی رحمانی سے ملاقات ہوئی. ان کو دیکھ کر فاتح سندھ اور حجاز مقدس کا متحرک و فعال کمانڈر محمد بن قاسم کی یاد تازہ ہوگئی. محمد بن قاسم وہ نوجوان ہیں جنہوں نے صرف سترہ سال کی عمر جس وقت لوگ نوجوانی کا مزہ لیتے ہیں اور لاابالی پن سے زندگی گزارتے ہیں، انہوں نے بغرض جہاد سندھ آنے کا فیصلہ کیا اور صرف پانچ سال کی قلیل مدت میں سندھ فتح کرلیا اور ہندوستان کے مظلوم لوگوں کو اس وقت کے راجہ داہر کے ظلم سے آزاد کرایا. اسی طرح ولی رحمانی نے صرف سترہ سال میں ایک ادارہ قائم کیا اور اسے پانچ سال کے قلیل عرصے میں ایک برانڈ ” امید گلوبل اسکول” کے نام سے پورے ہندوستان میں متعارف کرایا. موجودہ وقت میں اس عمر کے نوجوان صحیح سے اپنی زندگی کا فیصلہ نہیں لے پاتے ہیں کہ کدھر جانا ہے لیکن ولی رحمانی نے ہم جیسے نوجوانوں کے لیے ایک کامیابی کی مثبت لکیر کھیچ دی. ولی رحمانی نے امیر شریعت ثامن سے ملاقات کے دوران سوال کیا کہ موجودہ وقت میں ہندوستان کے اندر امارت شرعیہ اور امیر شریعت کے کیا معنی ہیں. مولانا فیصل رحمانی نے اس پر مکمل تفصیلی گفتگو کی. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک خلیفہ منتخب ہونے کے طریقے اور خلافت قائم ہونے کے مقاصد کو واضح کیا. خلافت عثمانیہ کے اختتام کے بعد مسلمانوں کی حالت اور اس کو کس طرح منظم کرنے کے لیے حضرت مولانا ابو الکلام آزاد کی سوچ جسے انہوں نے اپنے اخبار کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچایا اور مختلف اجلاس کے ذریعے اس کا لائحہ عمل تیار کیا. تب جا کر بہار و بنگال و اڑیشہ میں امارت شرعیہ کا وجود ہوا جبکہ ان حضرات کی دلی خواہش تھی کہ پورے ہندوستان میں امارت شرعیہ قائم ہو. کیونکہ امارت شرعیہ مسلمانوں کو اتحاد کا پیغام دے کر منظم و مستحکم کرتا ہے اور ہر مشکل گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑا رہتا ہے. جو رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کا مقصد تھا. حضرت مولانا ابو المحاسن سجاد رحمہ اللہ نے جس مقصد کے امارت شرعیہ قائم کرکا تھا اگر آج کا مسلمان اس مقصد کو سمجھ لیں تو ایک نیا انقلاب پرپا ہوسکتا ہے. 

 

قرآن کریم کا اثر

بات یہاں پر تھی کہ اس ختم قرآن کے موقع پر جہاں پورے مونگیر شہر سے لوگ جمع ہوئے تھے وہیں بیرون شہر سے بھی بڑی تعداد میں لوگ تشریف لائیں ہوئے تھے. سبھی لوگ حافظ صاحب سے دم کرانے کے لیے بے تاب تھے. بھیڑ بڑھتی جاری رہی تھی کوئی ہاتھ میں پانی کا بوتل لیے تو کوئی جسم میں لگانے کے لیے تیل قطار در قطار ہوکر حافظ صاحب سے دم کرا رہے تھے اور جن کے پاس کچھ نہیں ہے تو وہ اپنے آپ کو ہی دم کرا رہے تھے. اگر چھوٹا بچہ ہے تو اسے گود میں لے کر دم کرا رہے تھے. سوال یہ ہے کہ حافظ صاحب سے اتنی عقیدت آج کیوں؟ اس لیے کہ آج انہوں نے دنیا کا سب سے بڑا کلام قرآن مقدس تراویح میں مکمل کیا ہے. مستقل قرآن پڑھنے سے اللہ نے ان کی زبان میں تاثیر رکھدی ہے. اس لیے کہ قراٰنِ پاک کی تلاوت کے بےشمار فضائل اور برکتیں ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ- ترجمہ :اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔(پ15،بنی اسرآءیل:82) آپ نے دیکھ لیا نا کہ قراٰنِ کریم میں ربِّ کعبہ نے خود فرمایا کہ قرآن مومن کے لیے رحمت اور شفاء ہے۔  دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬- ترجمۂ:(قرآن) دلوں کی صحت ہے  (پ11،یونس:57) یعنی قرآن دلوں کا سکون ہے، قرآن دلوں کا چین ہے، قرآن کی تلاوت کرنے سے بیماریوں سے شفا ملتی ہے. نیز احادث مبارکہ میں بھی قراٰن کی تلاوت کے بے شمار فضائل ذکر کئے گئے اسی لیے انسانوں کا ہجوم امنڈ پڑا تھا کہ اسے یقین تھا قرآن کی برکت سے فائدہ ہوگا. جو جتنا اللہ کے کلام پر یقین رکھے گا اسے اتنا ہی فائدہ ہوگا.  آج ہمارے گھروں میں بیماریاں اور پریشانیاں ہیں. ہمیں دوا کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن سے بھی لازمی برکتیں لینی چاہئیں۔ 

 

معتکف کی فضیلت 

رات زیادہ ہوچکی تھی. بہت سارے لوگ اپنے اپنے گھر جا چکے تھے. باقی لوگ شب قدر کے مشتاق میں عبادت میں لگے تھے. کوئی نماز میں کھڑا ہے تو کوئی اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے دعا میں اپنا ہاتھ اٹھائے ہوئے ہے. کوئی قرآن مجید کی تلاوت سے حلاوت محسوس کر رہا ہے تو کوئی اوراد و وظائف اور توبہ استغفار سے اپنے دل کو پاک کرنے کی کوشش کر رہا ہے. تقریباً سارے معتکفین سو چکے ہیں کیونکہ ان کو معلمول کے مطابق صبح ڈھائی بجے 2:30 تہجد کے لیے بیدار ہونا ہے. ویسے بھی حالت اعتکاف میں ان کا سونا بھی عبادت ہے. وہ تو اللہ کے گھر میں اللہ کے مہمان ہیں. معتکف کی مثال ایسی ہے گویا کوئی شخص کسی کے در پر آکر پڑجائے کہ جب تک مقصد حاصل نہیں ہوگا اس وقت تک نہیں لوٹوں گا، اسی طرح معتکف اللہ کے در پر آکر پڑجاتاہے کہ جب تک رب کی رضا اور مغفرت کا پروانا نہیں مل جاتا، وہ نہیں جائے گا. معتکف دنیا سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کے گھر میں قیام کرکے تقربِ باری تعالیٰ کا حصول کرتا ہے ہے اور رحمتِ خداوندی کو اپنی طرف کھینچتا ہے نیز مغفرتِ باری تعالیٰ کی امید کرتا ہے. اوراس کی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اس کا اہتمام فرماتے تھےاور جب سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت سے لے کر وفات تک بلا ناغہ آپ اعتکاف کرتے رہے ،کبھی ترک نہیں کیا ۔ (اور اگر ایک سال اعتکاف نہ کرسکے تو اگلے سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ کما فی الحدیث)۔

 

مسجد رحمانی میں اعتکاف کیوں؟ 

اگلے دن حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی، نائب امیر شریعت بہار اڑیشہ جھاڑ کھنڈ و بنگال و استاد حدیث دارالعلوم وقف دیوبند کا بعد نماز تراویح فضیلت رمضان، فضیلت قرآن اور فضیلت اعتکاف کے موضوع پر پر مغز خطاب ہوا. آپ نے اپنے خطاب میں خانقاہ رحمانی کے معتکفین کو بتایا کہ آپ کو یہاں اعتکاف کرنے کا کیا فائدہ ہوگا. انہوں نے کہا کہ روزہ کا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے اور تقویٰ کیسے حاصل ہوگا، اللہ والوں کی صحبت میں رہ کر جیسا کہ خود قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ” یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ  الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾ (ترجمہ :اے ایمان والو! اللہ تعالٰی سے ڈرو (یعنی تقویٰ حاصل کرو) اور سچوں کے ساتھ رہو ۔) یعنی ایمان والوں کو اللہ والوں کی صحبت میں رہنے کی تلقین کی جارہی ہے. جو آپ کو خانقاہ رحمانی کی مسجد میں اعتکاف کرکے بزرگوں کی صحبت حاصل ہو رہی ہے. یہاں کے بزرگوں نے ہمیشہ امت کی رہنمائی کی ہے اور ہر مشکل وقت پر امت کو فتنہ سے بچانے کا کام کیا ہے. جب مونگیر میں فتنہ قادیانیت کا زور پکڑا تو اس کا قلعہ قمع کرنے کے لیے بانی  ندوہ العلماء لکھنؤ حضرت علی مونگیری نے کمر کس لی. جب امت کا شیرازہ بکھرا ہوا دیکھا تو حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی نےامت کو متحد کرنے کے لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کی تشکیل دی اور جب مسلمانوں کی داڑھی ٹوپی، عورتوں کے حجاب یا ملی تشخص کی بات زور پکڑی تو روکنے کے لیے مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی سینہ سپر ہو گئے. 

 

محمد شہاب الدین رحمانی قاسمی 

اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو 

مارواڑی کالج، بھاگل پور یونیورسٹی

حصہ اول کلک کریں

Add Your Heading Text Here

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *