مسجد رحمانی اور اخیر عشرہ کا اعتکاف

مسجد رحمانی اور اخیر عشرہ کا اعتکاف

آج رمضان المبارک کی اکیسویں شب ہے بہار دیوس کی مناسب سے 22 مارچ 2025 کو پورا بہار اس چھٹی کو منارہا ہے. میں بھی اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رمضان المبارک کی اکیسویں شب گزارنے کے لیے خانقاہ رحمانی کی مسجد آ پہنچا. تہجد کی نماز کے لیے جب تیار ہوا تو میرے بغل میں ایک چھوٹا بچہ بھی تہجد کے لیے تیار تھا. اسے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا. آج سے تقریباً پچیس سال پہلے کا زمانہ جب میرے دادا (حاجی عبد العزیز) حیات سے تھے اور پابندی کے ساتھ اعتکاف کیا کرتے تھے ساتھ میرے والد اور میں اپنے والد کے ساتھ آگے پیچھے کیا کرتا تھا


تین نسلوں کا اعتکاف
جب ہم تینوں کو ساتھ دیکھتے تو اس وقت خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ فرماتے کہ "تین نسلوں کا اعتکاف اگر دیکھنا ہو تو ان تینوں کو دیکھیے کہ باپ بیٹا اور پوتا ایک ساتھ یہاں اعتکاف میں ہیں" حضرت کا یہ جملہ ہمارے لیے باعث شرف اور سند کی حیثیت رکھتا ہے، حضرت رحمہ اللہ بھی پابندی سے رمضان کے آخر عشرہ کا اعتکاف فرماتے. مسجد کے پچھم جانب آپ کے کمرے سے متصل آپ کے لیے کالا کپڑا (پردہ) سے گھیر کر آپ کے لیے مصنوعی حجرہ تیار کردیا جاتا تھا. آپ اسی میں اعتکاف کرتے چونکہ مریدین کا جم غفیر مسجد رحمانی میں دور دراز سے اعتکاف اور اصلاح کی غرض سے آتے تھے تو ان کے لیے بھی یہ کمرہ تیار رہتا تھا، وہاں ان کی اصلاح اور اوراد و وظائف کے سلسلے میں ملاقات کرتے اور خاص طور پر 27ویں کی شب میں جو حضرت سے بیعت کرنا چاہتے ان سے بیعت لیتے. بیعت کے لیے آئے ہوئے تمام مہمان حضرت کے ہاتھ پر اللہ کے گھر میں اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور آئندہ پاک صاف زندگی گزارنے کا عہد کرتے. میں نے دیکھا ہے کہ بغرض اصلاح نہ صرف عوام الناس کی ایک بڑی تعداد ہوتی تھی بلکہ چوٹی کے علما بھی آپ سے ملاقات کرتے اور اپنے مسائل ان سے حل کیا کرتے تھے. میں نے اس وقت کےجامعہ اسلامیہ ڈھابیل گجرات کے شیخ الحدیث حضرت مولانا اکرام علی صاحب نور اللہ مرقدہ، اور ہمارے استاد محترم استاذ القراء حضرت مولانا احمد اللہ صاحب، بانی جامعہ فرقانیہ سبیل السلام کرنپور، بھاگلپور جیسے حضرات کو اسی اعتکاف کے موقع پر خانقاہ رحمانی آتے دیکھا ہے. مجھے یاد ہے کہ کئی سال تک دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی ظفیر صاحب مفتاحی نور اللہ مرقدہ اسی مسجد میں آکر اعتکاف کیا کرتے تھے تاکہ حضرت سے روحانی فیض حاصل کرسکیں. حضرت بھی آپ کا احترام کرتے اور اپنے ساتھ کھانا، افطار نیز سحری میں ساتھ بٹھاتے . تہجد کے بعد دونوں حضرات ایک ساتھ سحری کرتے اور خادم خاص حافظ امتیاز رحمانی سحری کراتے، سحری کے لیے روٹی میرے گھر سے ہی آتی تھی اور اس خدمت کا شرف برسوں سے میرے والد صاحب کے حصے میں تھی. میں بھی وہاں اکثر موجود ہوتا، دوران سحری بھی کئی اہم مسائل پر گفتگو ہوتی رہتی تھی. حضرت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی، نائب امیر شریعت بہار اڑیشہ جھاڑ کھنڈ و بنگال اور استاد حدیث دارالعلوم وقف دیوبند اکثر اخیر عشرہ میں خانقاہ رحمانی تشریف لاکر حضرت سے روحانی فیض حاصل کرتے اور حضرت رحمہ اللہ بھی افادہ عام کے لیے نماز تراویح کے بعد بیان پر زور دیتے اور ہھر ان کا پر مغز خطاب ہوتا. اسی طرح حضرت مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب، خلیفہ مجاز حضرت مولانا ولی رحمانی و سیکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ کو بارہا آخر عشرہ کا اعتکاف کرتے دیکھا ہے. معتکفین کو دوران اعتکاف حضرت سے ملاقات کرانے کا شرف والد صاحب کو حاصل تھا اس لیے تمام معتکفین والد صاحب(حاجی محمد صلاح الدین رحمانی) کو جانتے تھے . والد صاحب نے مولانا عمرین صاحب سے میری پہلی ملاقات اسی خانقاہ رحمانی میں کرائی تھی. والد صاحب کی وجہ سے میں بھی بلا تکلف حضرت کے حجرے میں آجایا کرتا تھا اور چونکہ میں چھوٹا تھا اس لئے کبھی کبھی والد صاحب تہجد کے وقت حضرت کو بیدار کرنے کے لیے مجھے بھیج دیا کر دیتے تھے. میں حضرت کا پاؤں دبا کر بیدار کرتا اور وضو وغیرہ کی تیاری کرتا. کبھی کبھی میرے ساتھ مولانا عبد العلیم رحمانی ازہری، حافظ احتشام رحمانی اور میرے چھوٹے بھائی حافظ مولانا ماسٹر محمد نجم الدین رحمانی وغیرہ بھی ہوا کرتے تھے آپ فورا تہجد کے لیے تیار ہوجاتے اس وقت حافظ خالد رحمانی ( فی الوقت استاد مدرسہ محمودیہ جوگبنی) تہجد کی نماز کی امامت فرماتے تھے.

مسجد رحمانی میں روزانہ ایک ختم قرآن

میں آج بھی اسی خانقاہ رحمانی کی مسجد ہی میں تھا.حضرت رحمہ اللہ کی یاد سے دل نڈھال تھا. اسی لیے یادوں کی پرتیں کھلتی جارہی تھی. آپ کے مریدین میں ایسے ایسے بزرگ اور اللہ والے مسجد رحمانی میں اعتکاف اور حضرت کی صحبت حاصل کرنے کے لیے آتے کہ اس کی مثال آج نہیں ملتی. ماسٹر یونس صاحب وہ بھی اللہ کے پیارے ہو گئے ہیں. ان کا معمول تھا کہ روزانہ ایک قرآن مجید مکمل کر لیتے تھے اور حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ معمول یکم رمضان سے آخر رمضان تک چلتا رہتا تھا. یعنی پورے رمضان میں تیس بار قرآن مجید مکمل کر تے تھے. اللہ اکبر. ایسی ہستی یہاں موجود تھی

دس دن تک صرف کھجور پانی سے سحری و افطار

اسی مسجد رحمانی میں مونگیر، بردہ کے ایک شخص نام معلوم نہیں لیکن حضرت رحمہ اللہ ان کو مستان کہہ کر پکارا کرتے تو سارے معتکفین بھی ان کو مستان ہی کہا کرتے تھے. وہ تو افطار اور سحری میں صرف کھجور کھاتے اور پانی پیتے تھے. اس کے علاوہ مکمل دس دن تک کچھ بھی نہیں کھاتے. گویا دس دن کھجور اور پانی سے گزارا کرکے صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین کی یاد تازہ کرا دیتے کہ اسلام کے جانثار صحابہ نے کس طرح اور کیسی کیسی قربانیاں پیش کی ہیں. حیرت تو تب ہوتی تھی کہ جب وہ مستان جی بیچ بیچ میں کلمہ تکبیر اور کلمہ توحید پوری توانائی اور طاقت کے ساتھ بلند آواز میں لگاتے جس سے مسجد کی در و دیوار گونج اٹھتی اور سارے معتکفین کی رگوں میں کلمہ توحید دوڑ جاتی. ان کی اس آواز سے کسی کو ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا تھا کہ دس دن کے بھوکے شخص کی یہ آواز ہے. اس فہرست میں چند وہ اسماء ہیں جن کا ذکر نہ کرنا ان کے حق نا انصافی ہوگی ان میں ماسٹر امین صاحب جو امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب کے خلیفہ مجاز تھے، الحاج ماسٹر محمد نعیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ، آپ بکارو جھارکھنڈ کے تھے ، اسی رمضان میں اللہ کو پیارے ہوگئے ، حاجی محمد نظام الدین صاحب مرحوم سپول، جناب عبد الرشید خان صاحب (خان صاحب سے ہی مشہور ہیں )، اور الحاج ماسٹر محمد نثار صاحب اور ان کے علاوہ بہت سارے اللہ کے نیک اور مخلص بندے ہیں جن کا نام ابھی ذہن میں نہیں ہے ، یہ وہ حضرات تھے جو پابندی کے ساتھ خانقاہ رحمانی کی مسجد میں اعتکاف کرتے تھے. امسال بھی ایسے اشخاص کی ایک بڑی تعداد اعتکاف میں ہیں جن کا تعلق برسوں سے خانقاہ رحمانی کے بزرگوں کے ساتھ رہا ہے جیسے مولانا حسیب الرحمن صاحب جو برسوں سے خانقاہ کی مسجد میں اعتکاف کرتے آرہے ہیں اور بے پناہ محبت و عقیدت رکھتے ہیں. جناب پروفیسر محمد فیض الباری صاحب سرائے خلیل، دہلی کا 1988 سے مولانا منت اللہ رحمانی صاحب سے تعلق ہے. ان کے بعد 1993 میں حضرت مولانا محمد ولی رحمانی سے بیعت و ارشاد حاصل کی اور آج تک اس تعلق کو قائم رکھے ہوئے ہیں. پڑھے لکھے اور بڑے کاروباری آدمی ہیں اس کے باوجود دہلی سے مونگیر تشریف لاکر اعتکاف میں وقت لگا رہے ہیں. مسجد رحمانی میں میری ملاقات جناب محمد سراج الدین، رائے گنج اتردیناج پور سے ہوئی. ان سے جب معلوم کیا کہ آپ کب سے یہاں سے جڑے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں حضرت مولانا منت اللہ صاحب سے 1982 میں بیعت ہوا. اس کے بعد 2000 سے خانقاہ آنا جانا ہوتا رہتا تھا لیکن اعتکاف میں دس سال سے زیادہ عرصہ سے آرہا ہوں. اسی طرح ایک اور مخلص جناب مولانا محمد صلاح الدین قاسمی،گوندواڑا، کٹیہار سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میری سب سے پہلی ملاقات حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب سے دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر دیوبند میں ہوئی. اس کے بعد دس سال کے بعد ملاقات ہوئی تو حضرت نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آپ سے پہلے ملاقات ہو چکی ہے. میں حیرت میں تھا ملاقات کو دس سال گزر گئے اور حضرت کو اب تک یاد ہے پھر حضرت نے کہا کہ آپ خانقاہ تشریف لائیں تو میرا مہمان رہیں گے. اس کے بعد میں مسلسل یہاں آنے لگا اور گزشتہ پندرہ سال سے خانقاہ اعتکاف میں آرہا ہوں. الحمدللہ. میری ملاقات محمد شعیب عالم قاسمی لچھمی پور، کٹیہار، سے ہوئی. جب ان سے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں 1984 کے بیچ کا جامعہ رحمانی کا طالب علم ہوں اور درجہ ششم سے یہاں تعلیم حاصل کی ہے. لیکن خانقاہ رحمانی کی مسجد میں اعتکاف کرنے کا شرف مجھے اس بار حاصل ہوا ہے. مذکورہ ناموں کے علاوہ سیکڑوں کی تعداد میں معتکفین ایسے ہیں جن کی تاریخ لکھی جاسکتی ہے لیکن یہاں پر اس چھوٹے سے مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہے. فجزاھم
اللہ عنا خیرا و بارک اللہ فیھم جمیعا ۔

ایمانداری سے مطبخ کا نظام
آج جب مسجد رحمانی میں تہجد کی نماز کے لیے اٹھا تو وہی نورانی معمول دیکھ کر خوشی محسوس ہوئی کہ کچھ لوگ ایک دوسرے کا پاؤں دباکر تہجد اور سحری کے لیے بیدار کر رہے ہیں. باہر نکلا تو مسجد کے صحن میں مولانا رضی احمد صاحب رحمانی (ناظم مطبخ و انچارج مہمان خانہ ) تقریباً ڈھائی بجے رات ہی سے معتکفین کے لیے سحری کے انتظام میں چاق و چوبند نظر آئے اور باورچی و ملازمین کو سحری لگانے کی ہدایت فرما رہے ہیں. میرے خیال میں یہ خدمت آنجناب کے سپرد کم و بیش اٹھائیس(28) سال سے ہے اور وہ نہ صرف سحری بلکہ افطار اور کھانے کا انتظام بحسن خوبی انجام دیتے آرہے ہیں. مولانا رضی احمد صاحب کی خوبی یہ ہے کہ جب تک ایک ایک مہمان سے مطمئن نہ ہوجاتے تب تک اپنا قافلہ (سحری و افطار) نہیں اٹھاتے. مولانا کی داڑھی سفید ضرور ہوگئی ہے لیکن ان کا حوصلہ ابھی بھی جوان ہے. وہ یہ خدمت پوری توانائی اور دلچسپی سے آج بھی انجام دے رہے ہیں. عصر کے بعد میں نے ان سے پوچھ لیا کہ مولانا آپ یہ خدمت کب سے انجام دے رہے ہیں تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ غالباً 1996 کا زمانہ ہوگا، اس وقت کے ناظم مطبخ حافظ عبد العظیم صاحب چھٹی پر جارہے تھے. حضرت رحمہ اللہ نے مجھے بلایا اور مطبخ کی چابی میرے سپرد کردی. اس دن سے آج تک میں اس خدمت پر معمور ہوں. ماشاءاللہ اتنے سالوں سے ایک ہی ذمہ داری کو بغیر کسی داغ و دھبہ کے انجام دے رہے ہیں جو ان کے لیے ایک تمغہ امتیاز ہے کیونکہ مطبخ کا نظام پیسہ سے چلتا ہے اور اس پر پوری ایمانداری سے کھڑے ہونا سب کی بات نہیں ہے. کئی مرتبہ اہل خیر حضرات نے اپنی جانب سے معتکفین کے لیے سحری یا افطار کا انتظام کرنا چاہا تو ان کا حساب جو بنتا ان کو بتا دیا جاتا تاکہ دوسرے مد سے خلط نہ ہو.

حضرت رحمہ اللہ کی تربیت کا نرالا انداز
تہجد کا وقت ہوچکا تھا تبھی سفید لباس میں نہایت عمدہ صدری پہنے ہوئے قاری جوہر نیازی رحمانی مصلی کی طرف امامت کے لیے بڑھے. مجھے اپنا زمانہ یاد آگیا. ایک وقت تھا کہ جب ہم دونوں مل کر چار چار رکعت تہجد کی نماز پڑھایا کرتے تھے. حضرت رحمہ اللہ مجھے بطور مشق اور تربیت کے لیے مجھے تہجد کی نماز میں کھڑا کرا دیتے. شروع شروع میں تو میرے پیر لڑکھڑاتے رہے لیکن بعد میں یہ ڈر دل سے نکل گیا اور آج الحمدللہ حضرت کی دعا اور تربیت کا نتیجہ ہے کہ نہ صرف بڑی سی بڑی مسجد میں کھڑے ہونے سے ڈر لگتا ہے بلکہ بڑے سے بڑا مجمع میں بھی بلا خوف قرآن مجید سنانے کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے. مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں بالکل چھوٹا تھا اور صرف پارہ عم حفظ کیا تھا. ابو کی خواہش سے حضرت کو عصر کے بعد کبھی کبھی قرآن مجید سنایا کرتا اور حضرت میرے حوصلے کو بڑھانے کے لیے بخوشی سنتے. جبکہ معمول یہ ہے کہ عصر کے بعد قرآن مجید وہ حافظ صاحب سناتے ہیں جن کو خانقاہ رحمانی کی مسجد میں تراویح سنانی ہوتی ہے اور یہ خدمت جامعہ رحمانی کے استاد حافظ مولانا اکرام صاحب 1999 سے اب تک انجام دے رہے ہیں. آنجناب سے پہلے جامعہ رحمانی کے سب سے بزرگ استاد حافظ رضی احمد صاحب تراویح سنایا کرتے تھے(فی الوقت حافظ صاحب جامعہ رحمانی کے اساتذہ میں سب سے سینئر ہیں اللہ تعالیٰ ان کے عمر کو دراز فرمائے). عصر کی محفل میں سماعت قرآن کے بعد جن حضرات کو کسی طرح کا کوئی مسئلہ دریافت کرنا ہوتا تو وہ بھرے مجلس میں سوال کرتا اور حضرت مدلل جواب مرحمت فرماتے. یہ سلسلہ موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب نے بھی قائم کر رکھی ہے. حضرت رحمہ اللہ کی تربیت کا ایک واقعہ یہاں ذکر کرنا بہتر سمجھتا ہوں کہ بچوں کی تربیت کے تئیں کس قدر بیدار تھے. خانقاہ رحمانی سے متصل محلے کے بچے آخر عشرہ میں بڑی تعداد میں افطار کے لیے آجاتے تھے. ان میں بہت سارے بچے ایسے بھی ہوتے تھے کہ ان کے سر پر نہ ٹوپی ہے اور نہ ہی پیر پر چپل تو آپ نے ان کی تربیت اور دینی ماحول پیدا کرنے کے لیے ایک نعرہ دیا تھا " سر پر ٹوپی، پیر پر چپل مسجد چلو مسجد چلو" اور اس کے ذمہ دار جناب فضل رحمان رحمانی کو بنایا تھا جو آج کل فکر و نظر آفیشل ٹی وی چینل کے چیف ایڈیٹر اور جامعہ رحمانی کے شعبہ صحافت کے صدر ہیں. ان میں جو بچہ کلمہ طیبہ یا دوسرے کلمے، استغفار اور درود شریف وغیرہ یاد کرلیتا تو ان کو حضرت خود بلاتے اور بڑے پیار سے ان سے سنتے اور پھر اس کو بطور انعام ایک سیب عنایت فرماتے. اس طرح بچوں کی تربیت فرماتے کہ بچوں میں خود ایک شوق پیدا ہوجائے. مجھے بھی بطور تربیت تہجد کے لیے یا کبھی کبھی نماز کے لیے آگے بڑھا دیتے تھے جبکہ باضابطہ طور پر تو حافظ خالد کے بعد 2004 میں حضرت رحمہ اللہ نے تہجد پڑھانے کی ذمہ داری قاری جوہر کو دی تھی. اس وقت سے لے کر آج تک قاری جوہر صاحب ہی اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دے رہے ہیں. موصوف خوش الحان قاری کے ساتھ باصلاحیت عالم دین ہیں. قاری صاحب نے آج کے تہجد میں سورہ حجرات سے سورہ ذاریات تک بہت عمدہ انداز میں تلاوت کی. تہجد پڑھ کر ایک روحانی غذا حاصل ہوئی

چائے کی پیالی
تہجد کے بعد سحری تیار تھا معتکفین لگے ہوئے دسترخوان پر تشریف لائے اور سحری تناول فرماکر چائے نوش فرمائی. میری نگاہ بھی چائے کی پیالی پر پڑی تبھی یاد داشتوں کے خانوں سے مجھے وہ وقت یاد آگیا جب میں چھوٹا ہوتا تھا اور ابو مجھ سے کہتے کہ چائے کی پیالی جہاں جہاں بکھری پڑی ہے سب کو اکٹھا کرو اور میں بس چائے کی پیالی ڈھونڈنے نکل پڑتا کبھی کسی کے سرہانے پر تو کبھی کسی کونے میں رکھی پیالی ملتی اور میں خوشی خوشی اسے لے کر باہر آتا گویا میں نے کوئی کھوئی ہوئی چیز حاصل کر لی. اس کے بعد میں اور میرے ساتھ کچھ بھائی حوض کے پاس لے جاکر دھوتے اس دھونے کے دوران کبھی پیالی بھی ٹوٹ جاتی تو ہم لوگ ٹوٹی ہوئی پیالی کو جلدی جلدی چھپانے کے درپے ہوتے کہ کہیں ڈانٹ نہ پڑے. چائے پلانے کی ذمہ داری میرے والد محترم حاجی محمد صلاح الدین تقریباً تیس سال سے انجام دے رہے ہیں. میں نے اپنے زمانہ طفلی سے انہیں اس ذمہ داری کو بخوشی انجام دیتے ہوئے دیکھا ہے. حالانکہ اس طویل مدت میں کئی بار پریشانی آئی. کبھی کوئی چائے بنانے والے نہیں ملے تو کبھی اچانک دودھ خراب ہوگیا. بیس پچیس سال قبل دودھ کی اتنی فراوانی یا پیکٹ میں دودھ دستیاب نہیں ہوا کرتا تھا جس سے والد صاحب پریشان ہوجاتے کہ اب کیسے معتکفین کو چائے پلائی جائے گی اور کبھی کبھی تو مالی حالات ٹھیک نہیں رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ہمت کبھی نہیں ہاری. ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق پر اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو آج تک باقی رکھا ہے. دعا گو ہوں کہ والد صاحب کی اس خدمت کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین

کرونا کال (لاک ڈاؤن مارچ 2019)
میرے یادداشت کے مطابق مسجد رحمانی کی ایک خاصیت یہ بھی رہی کہ اخیر عشرہ میں معتکفین سے کبھی مسجد خالی نہیں رہی ہے. کرونا جیسے کال میں جب پوری دنیا اپنے گھر میں قید ہوگئی تھی اور مسجدوں کے دروازے بند ہوگئے تھے اس وقت بھی یہ مسجد آباد تھی. میرے والد صاحب فرماتے ہیں کہ 2020 میں صرف میرے پیر و مرشد حضرت مولانا ولی صاحب اور احقر (حاجی محمد صلاح الدین رحمانی) نے اعتکاف کیا. یعنی پوری مسجد میں صرف ہم دونوں ہی تھے. اسی سال حضرت نے لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری مسجد کی مرمت کرائی اور رنگ روغن کرکے نئے سرے سے مسجد کو چمکایا، پوری مسجد میں بجلی کا کام کراکر جہاں جہاں لائٹ یا پنکھے کی ضرورت تھی اسے لگوایا. ہم لوگ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ حضرت مسجد کا کام کر رہے ہیں لیکن بندہ خدا کو آگاہی ہوچکی تھی کہ اب جانے کا وقت آچکا ہے اسلیے وہ بظاہر اللہ کے گھر کی تعمیر کر رہے تھے لیکن در اصل اپنے لیے گھر جہاں ہمیشہ ہمیش رہنا ہے اس کی تیاری کر رہے تھے اور وہاں کے لیے گھر بنا رہے تھے. کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے "من بنی للہ مسجدا بنی اللہ لہ بیتا فی الجنہ" جس نے اللہ کے لیے گھر بنایا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنا تے ہیں


انتقال پر ملال
جب مسجد کا کام مکمل ہوگیا تو اس کے اگلے سال ہی حضرت 3 اپریل 2021 کو حقیقی مالک مسجد سے جاملے. انا للہ وانا الیہ راجعون. آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے، یہاں تک کہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے مضبوط قوت و جسم کے مالک اور بہادر بھی اس اعلان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ہاتھ میں بے نیام تلوار لے کر یہ کہنے لگے کہ جس شخص کو میں نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔لیکن اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے وہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جو تمام امت مسلمہ کے بڑے سے بڑا غم کو ہلکہ کرنے لے کافی ہے. آپ نے کہا: ’’لوگو! سنو! جو لوگ تم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں اورجولوگ اللہ پاک کی عبادت کرتے تھے تو یاد رکھو! اللہ زندہ ہے اور اللہ کی ذات کو کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ "اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم"(الآیت). مفکر اسلام حضرت مولانا ولی رحمانی کے انتقال پر بھی امت مسلمہ کا یہی حال تھا. آپ نے ہر مشکل وقت میں امت کی رہنمائی کی تھی. شریعت اسلامی کی حفاظت کے لیے حکومت وقت کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے. اب وہ شیر دل انسان، بے پناہ صلاحیتوں کے مالک اور ہر نازک وقت میں حکمت و دانائی سے فیصلہ کرنے والے، ہم سب کو چھوڑ کر جا چکے تھے. کرونا جیسے پروٹوکول میں بھی لاکھوں کی تعداد میں نہ صرف بہار سے بلکہ جھاڑ کھنڈ سے، بنگال سے، اتر پردیش سے، مہاراشٹر سے حضرت مولانا عمرین محفوظ رحمانی صاحب اور دہلی سے میں خود اور میرے ساتھ کئی سارے احباب جن میں حضرت مولانا محمد شمشاد رحمانی اور میرے خسر جناب محمد مفیض عالم وغیرہ نے جنازہ میں شرکت کی اور شہر مونگیر انسانوں کے جم غفیر سے جام ہوگیا. یہ حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب سے عقیدت و محبت تھی. لیکن ایسے وقت میں بھی محبین نے حضرت ابو بکر صدیق کے اسی تاریخی قول کو یاد رکھ کر سن 2021 میں بھی میرے والد اور مولانا ماسٹر مشیر الدین رحمانی، سپریڈنٹ اقلیتی ہوسٹل مونگیر نے مسجد رحمانی میں اعتکاف کیا. اتفاق دیکھیے کہ کرونا کے دونوں سال صرف دو دو آدمی ہی رہیں اور دونوں میں میرے والد صاحب شریک رہیں. اس لیے میں خدا کا شکر کرتے ہوئے کہہ سکتا ہوں کہ والد محترم جناب محمد صلاح الدین 1992 سے بلا ناغہ آج (2025) تک اعتکاف کرتے آرہے ہیں. میں خانقاہ رحمانی کی مسجد میں تھا اور طلوع صادق کا سنہرا وقت، اسی لیے یادوں کے دریچے کھلتے جا رہے تھے اور حضرت رحمہ اللہ کے ساتھ اعتکاف میں بتائے ہوئے ایک ایک پل میرے ذہن میں گردش کر رہا تھا. ان کی یادیں مجھے پریشان کر رہی تھی. چونکہ آج میرے سامنے خانقاہ رحمانی کی وہی مسجد، وہی مصلی، وہی حوض اور وہی در و دیوار موجود تھی لیکن آج ہمارے روحانی دادا جنہیں ہم دادا ہی کہا کرتے تھے، ہم سبھوں کے پیر و مرشد، خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشین اور لاکھوں لوگوں کے مربی، سیکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے معتکفین کے مصلح حضرت مولانا محمد ولی رحمانی امیر شریعت سابع اب موجود نہیں تھے. ان کی بس یادیں ہی یادیں تھیں جو میرے ٹوٹے ہوئے دل کو تسکین دے رہی تھی کہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی یادوں کو تازگی بخشنے کیلئے اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش کو آگے بڑھانے کیلئے آپ کے فرزند ارجمند ہم سبھوں کے مرشد و مربی خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں مفکر ملت امیر شریعت حضرت مولانا سید احمد ولی فیصل رحمانی صاحب دامت برکاتہم خانقاہ رحمانی کو اپنے اسلاف کے چھوڑے ہوئے نقوش پر لے کر آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور موجودہ دور میں ہم سبھوں کیلئے راہنما اور قائد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس خانقاہ رحمانی اور یہاں کے بزرگان دین کے فیوض و برکات سے ہم سبھوں کو مالا مال فرمائے اور رمضان کے بابرکت مہینے میں ہم سبھوں کی مغفرت فرمائے اور امت مسلمہ کو ہر طرح کے شرور و فتن اور ناپاک سازشوں سے محفوظ رکھے آمین. ایں دعا از من و جملہ جہاں آمین باد

مضمون نگار

محمد شہاب الدین رحمانی قاسمی
اسسٹنٹ پروفیسر و صدر شعبہ اردو
مارواڑی کالج، بھاگل پور یونیورسٹی

1 thought on “مسجد رحمانی اور اخیر عشرہ کا اعتکاف”

Leave a Reply to MD NAJMUDDIN Cancel Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *